Wednesday 1 February 2017

قرآن مجید کے حقوق اور ہمارا طرزِ عمل

تحریر: عامر عباسی۔
ہدایت کے دو پہلو
ہدایت کا ایک پہلو نظری، فکری اور علمی ہدایت ہے، جبکہ ہدایت کا دوسرا پہلو عملی، اخلاقی اور زندگی کے معمولات کے ضمن میں ہدایت ہے، یعنی انسان میں حق و باطل کی تمیز پیدا ہوجانا۔
پہلا پہلو
کو کچھ نظر آرہا ہے یہ حقیقت نہیں، بلکہ جو کچھ اس کے پیچھے ہے وہ حقیقت ہے۔ کائنات میں جو کچھ نظر آرہا ہے یہ حقیقت نہیں، بلکہ حقیقت اس کے پیچھے ہے۔ ایک ہمارا یہ ظاہری وجود ہے، جس میں درد محسوس ہوتا ہے، لیکن یہ حقیقت نہیں، حقیقی وجود روحانی وجود ہے جو نظر نہیں آتا۔
اسی طرح یہ کارخانہ دنیا ہے، یہاں کی رنگینیاں ہیں، ساز و سامان ہے، لیکن حقیقت اس کے پیچھے ہے یعنی آخرت۔ یہ جو ظواہر ہیں ان کے بجائے حقائق پر توجہ ہوتو یہ نظری ہدایت ہے، یعنی ظاہر و باطن اور حق و باطل کا فرق معلوم ہوجانا یہ ہدایت ہے۔ تین حقائق یعنی ذات باری تعالیٰ، روح انسانی اور حیات اخروی پر جب تین ظواہر یعنی کائنات، جسم انسانی اور حیات دنیوی کا پردہ پڑ جائے تو یہی دجل اور دجالیت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بہت ہی پیاری دعا اسی باری میں ہے:
’’اللّهم أرِنِی حَقِیقَةَ الأشیَاءِ کَمَا ہِیَ‘‘۔
’’اے اللہ! مجھے تمام چیزوں کی حقیقت اسی طرح دکھادے جس طرح وہ ہیں‘‘۔
دوسرا پہلو
دوسری ہدایت عملی ہے اور اس کے بھی دو درجے ہیں:
۱:۔۔۔ انفرادی سطح پر ہدایت۔
۲: ۔۔۔ اجتماعی سطح پر ہدایت۔
انفرادی ہدایت یہ ہے کہ: انسان کو یہ سمجھ آجائے کہ مَیں کیا کروں، کیا نہ کروں؟ کیا خیر ہے اور کیا شر ہے؟ کیا اچھی بات ہے اور کیا بری بات ہے؟ یہ انفرادی ہدایت اللہ نے ہر انسان کے دل میں ودیعت کی ہے، جیسا کہ ارشادِ باری ہے:
«وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا * فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا»(الشمس: ۷،۸)
یہی وجہ ہے اس انفرادی معاملے پر قرآن مجید میں اتنا زیادہ زور نہیں دیا گیا، ان باتوں کو معروف اور منکر کہا گیا ہے، معروف یعنی جانی پہچانی جس سے خود ہی انسان واقف ہے، اور منکر یعنی جس سے خود ہی انسانی نفس نفرت کرتا ہے، دنیا کے کس انسان کو معلوم نہیں کہ سچ بولنا اچھی اور جھوٹ بولنا بری بات ہے۔
اجتماعی سطح پر ہدایت
انسان کی اصل احتیاج اجتماعی زندگی کی ہدایت ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آ کر انسان افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔ دنیا میں تین بڑے اجتماعی مسائل ہیں:
۱: ۔۔۔ مرد و عورت کے حقوق میں توازن۔
۲: ۔۔۔ ریاست اور شہری کے حقوق میں توازن، یعنی شہری کو کتنی آزادی ہے اور کتنا پابند ہے اور ریاست کو کتنی آزادی ہے اور کتنی پابند ہے۔
۳: ۔۔۔ سرمایہ اور محنت، سرمایہ دار اور مزدور کے حقوق کا توازن۔ یہاں آ کر انسان ہدایت کا محتاج ہوجا تا ہے اور وہ ہدایت قرآن مجید سے ملتی ہے:
« الرَّحْمَنُ ﴿۱﴾ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ﴿۲﴾ خَلَقَ الْإِنْسَانَ ﴿۳﴾ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ﴿۴﴾»(الرحمن)
رحمن اللہ کے ناموں میں سے چوٹی کا نام ہے اور قرآن تمام کتابوں میں سے چوٹی کی کتاب ہے اور انسان تمام مخلوقات میں سے چوٹی کی مخلوق ہے اور بیان انسان کی تمام صلاحیتوں میں سے چوٹی کی صلاحیت ہے۔
ان آیات میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی کہ رحمن کی چوٹی کی مخلوق انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی چوٹی کی صلاحیت یعنی بیان کو اللہ کی چوٹی کی کتاب قرآن کو بیان کرنے پر صرف کرے۔ اس ساری گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری قوت کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی سطح پر رجوع الی القرآن کی زبردست تحریک چلنی چاہیے، تا کہ سب مسلمان قرآن کے ساتھ جڑ جائیں، قرآن کو سیکھیں اور سکھائیں، سمجھیں اور سمجھائیں، عمل کریں اور عمل کروائیں، اسی سے ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
آج قرآن ہماری زندگیوں سے نکل گیا ہے، ہم اگر چہ کئی کام انفرادی سطح کے کرتے ہیں، لیکن اجتماعی سطح پر پہلا قدم رکھتے ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ہم رواجی پردہ تو کرتے ہیں، لیکن شرعی پردہ نہیں کرتے، رواجی پردہ یہ ہے کہ اجنبی سے پردہ کرو اور جاننے والے یا رشتہ دار سے نہیں، جبکہ شرعی پردہ یہ ہے کہ غیرمحرم سے پردہ کرو، چاہے وہ رشتہ دار یا جاننے والا ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح دیگر اجتماعی مسائل میں ہماری یہی حالت ہے کہ ہم دین پر عمل نہیں کرتے۔
قرآن مجید کے پانچ حقوق
آج دنیا میں حقوق کی جنگیں لڑی جارہی ہیں، کہیں خواتین کے حقوق کی بات ہو رہی ہے اور کہیں جانوروں کے حقوق کی، لیکن آج کے مسلمان کو یہ نہیں معلوم کہ اس پر قرآن مجید کے کتنے حقوق ہیں۔ جاننا چاہیے کہ ہر مسلمان پر قرآن مجید کے پانچ حقوق ہیں:
۱: ایمان و تعظیم۔ ۲: تلاوت و ترتیل۔ ۳: تذکر و تدبر۔ ۴۔ حکم و اقامت۔ ۵۔ تبلیغ و تبیین۔
پہلا حق:۔۔۔ ایمان و تعظیم
ایمان کے دو حصے ہیں: ایک اقرار اور دوسرا تصدیق۔ ہم اقرار تو کرتے ہیں، لیکن یقین اور تصدیق کی ہمارے اندر کمی ہے، لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں کہ آیا ہم قرآن کو متوارث مذہبی عقیدے کی بنا پر ایک آسمانی مقدس کتاب سمجھتے ہیں، جس کا زندگی اور اس کے جملہ معاملات سے تعلق نہ ہو یا یقین ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس لیے نازل ہوا کہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور اسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنائیں؟۔
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کمی کیسے پوری ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان و یقین کے حصول کا سب سے آسان ذریعہ اصحاب ایمان و یقین کی صحبت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عظیم ایمان بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا نتیجہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمارے لیے بھی اصحاب یقین کی صحبت ضروری ہے اور خود ایسے خواص کے لیے نور ایمان کا منبع قرآن ہے، پھر اس کے بعد سیرت رسول و اصحاب رسول کا مطالعہ کرنے سے معنوی صحبت میسر آجاتی ہے۔
ایمان کوئی ٹھوس چیز نہیں جسے باہر سے ٹھونس کر اندر داخل کیا جائے، بلکہ ایمان کی چنگاری ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے، لیکن اعمالِ بدنے اُسے دھندلا کیا ہوتا ہے، اس چنگاری کو شعلہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إنَّ هذِه القُلُوبَ تَصدَأُ الحَدِیدُ إذَا أصَابَهُ المَاءُ، قِیلَ یَارَسُولَ اللهِ! مَا جِلاءُها؟ قال کَثرَةُ ذِکرِ المَوتِ وَ تِلاوَةُ القُرآنِ» (رواہ البیہقی)
’’بے شک دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہے کو پانی لگنے سے زنگ لگ جاتا ہے، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول ! اس کی صفائی کس طرح ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر وقت موت کا دھیان رکھنا اور قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنا‘‘۔
دوسرا حق: ۔۔۔تلاوت
قرآن مجید کا دوسرا حق اس کی قراء ت اور تلاوت ہے۔ قراء ت کا لفظ ہر کتاب کے لیے بولا جاتا ہے، جبکہ تلاوت کا لفظ صرف قرآن کے لیے خاص ہے۔ پہلے زمانے میں قاری قرآن کو عالم کہا جاتا تھا، لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا جو قرآن کو مخارج اور صفات کا لحاظ رکھتے ہوئے اہتمام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
قرآن کریم کی تلاوت بار بار کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح جسم انسانی بار بار کھانے کا محتاج ہوتا ہے، اسی طرح روح انسانی بھی غذا کی محتاج ہے اور روح کی سب سے عمدہ غذا تلاوت قرآن کریم ہے۔ پھر اس تلاوت کے بھی کچھ حقوق ہیں:
* تلاوت کا پہلا حق یہ ہے کہ قرآن کریم کو تجوید کے قواعد کا لحاظ کرکے تلاوت کیا جائے، یعنی مخارج، صفات اور رموز و اوقاف کا علم ہونا چاہیے، تا کہ قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا ہوسکے۔
* تلاوت کا دوسرا حق یہ ہے کہ روزانہ کا معمول ہونا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ تلاوت کا نصاب دس پارے روزانہ ہے اور کم سے کم نصاب ایک پارہ روزانہ ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک نصاب ہے، جس پر اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا معمول تھا، وہ ایک ہفتے میں ختم قرآن کا ہے۔ قرآن مجید میں سات منزلوں کی تقسیم اسی وجہ سے ہے کہ ایک منزل روزانہ تلاوت کرلی جائے اور ایک منزل کو تلاوت کرنے میں تقریباً دو گھنٹے صَرف ہوتے ہیں۔
* تلاوت کا تیسرا حق خوش الحانی ہے، فرمایا:
’’زَیِّنُوا القُرانَ بأَصوَاتِکُم‘‘ (سنن ابی داؤد، ج:۱، ص:۵۴۸، دارالکتاب العربی، بیروت)
ترجمہ: ’’قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرکے پڑھو‘‘۔
اور ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ:
’’لیسَ مِنَّا مَن لَّم یَتَغَنَّ بِالقُرآن‘‘۔ (سنن ابی داؤد، ج:۱، ص: ۵۴۸، دارالکتاب العربی، بیروت)
ترجمہ: ’’جو قرآن کو خوبصورت نہیں پڑھتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
* تلاوت کا چوتھا حق یہ ہے کہ آدابِ ظاہری و باطنی کا خیال رکھا جائے، یعنی باضو ہوکر قبلہ رخ بیٹھ کر تعوذ و تسمیہ پڑھ کر حضوریِ قلب، اور مسلسل تذکر و تدبر اور تفہم و تفکر کرکے تلاوت کا اہتمام کیا جائے۔ اپنے خود ساختہ خیالات و نظریات کی سند قرآن میں نہ ڈھونڈی جائے، بلکہ قرآن سے ہدایت لینے کے لیے اُسے پڑھا جائے۔
* تلاوت کا پانچواں حق ترتیل ہے، یعنی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کی جائے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وَ رَتِّلِ القُرآنَ تَرْتِیلاً‘‘ ۔ ’’اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘۔ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا تثبیت قلبی کا ذریعہ بھی ہے، اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا:
«كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا»(الفرقان:۳۲)
ترجمہ: ’’اور اسی طرح (اتارا) تا کہ ہم اس کے ذریعے تمہارے دل کو ثبات عطا کریں، چنانچہ پڑھ سنایا ہم نے اس کو ٹھہر ٹھہر کر‘‘۔
چنانچہ ترتیل کے ساتھ پڑھنے سے زیادہ فیض حاصل ہوتا ہے۔ ایک روایت میں فرمایا: ’’قرآن کی تلاوت کرو اور روؤ‘‘۔
* تلاوتِ قرآن کا چھٹا حق یہ ہے کہ اس کو حفظ بھی کیا جائے۔ حفظ میں یہ ضروری نہیں کہ پورا ہی حفظ کیا جائے، بلکہ حسب توفیق زیادہ سے زیادہ حفظ کیا جائے۔
تیسرا حق: ۔۔۔ تذکر و تدبر
یعنی قرآن کو سمجھنا۔ بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت کو جواز ان لوگوں کے لیے ہے جو پڑھنے لکھنے سے محروم رہ گئے ہیں اور اب ان کی عمر اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ ان کے لیے سیکھنا ناممکن ہو چکا ہے، ایسے لوگ اگر ٹوٹی پھوٹی تلاوت کریں یا تلاوت نہ کرسکیں محض عقیدت کی بنا پر سطروں پر اپنی انگلیاں ہی پھیریں تو بھی ان کو ثواب ملے گا۔ لیکن پڑھے لکھے لوگ جنہوں نے دنیا کے مختلف علوم و فنون حاصل کرنے میں زندگیاں صرف کیں، اپنی تو کیا غیرملکی زبانیں بھی سیکھیں، ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کا فہم حاصل کریں۔
فہم کے مدارج
فہم قرآن کے دو درجے ہیں:
۱: تذکر بالقرآن۔
۲: تدبر فی القرآن۔
۱: تذکر بالقرآن یہ ہے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کرنا، اس اعتبار سے قرآن مجید بہت ہی آسان کتاب ہے، ارشاد ربانی ہے:
«وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ»(القمر:۱۷)
’’ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنایا ہے، ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘
قرآن کو نازل کرکے اللہ تعالی نے ہر انسان پر حجت قائم کردی ہے، خواہ وہ کتنی ہی کم استعداد کا مالک ہو، اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ بھی درست ہے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کرنا ہر انسان کے لیے آسان ہے، ہر انسان قرآن سے تذکر حاصل کرسکتا ہے۔
۲: تدبر فی القرآن یہ ہے کہ قرآن میں غور و خوض کیا جائے، قرآن مجید وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا کسی کو اندازہ نہیں ہوسکا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تدبر و تفکر میں کئی کئی سال لگاتے تھے۔ وہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سات دن میں قرآن کریم ختم کرنے کا حکم فرمایا تھا، وہ صرف سورہ بقرہ میں تدبر پر آٹھ سال لگادیتے ہیں، حالانکہ آیات کا شان نزول، عربی زبان اور دیگر قواعد سب جانتے تھے، ان کو سیکھنے کی کوئی حاجت ہی نہیں تھی۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے ایک عارف کے بارے میں لکھا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: میں قرآن مجید کا ایک ختم ہر جمعہ کو کرتا ہوں اور ایک ختم ہر مہینے کرتا ہوں اور ایک ختم ہر سال کرتا ہوں اور ایک ختم ایسا بھی ہے جس میں تیس سال ہوگئے ہیں، ابھی جاری ہے۔
قرآن مجید کو بطریق تدبر پڑھنے کی کچھ شرائط ہیں، اس کام کے لیے اولاً عربی زبان کے قواعد کا گہرا اور پختہ علم ضروری ہے، پھر اس کے ادب کا ایک ستھرا ذوق اور فصاحت و بلاغت کا عمیق فہم لازمی ہے، اس پر مستزاد یہ کہ جس زبان میں قرآن نازل ہوا، اس کا صحیح فہم اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ادب جاہلی کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے اور دور جاہلی کے شعرا اور خطبا کا کلام بھی پڑھا جائے، پھر اسی پر بس نہیں، قرآن کی اپنی بھی وضع کردہ اصطلاحات ہیں، جن سے واقفیت ایک طویل مدت تک قرآن کو پڑھتے رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر قرآن کے نظم کو سمجھنا، اس کی ترتیب نزولی اور آیتوں و سورتوں کا باہمی ربط جاننا، یہ سب چیزیں بہت ضروری ہیں۔ یہ ساری وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں مفسرین نے چودہ علوم کا جاننا کہا ہے، اور یہ چودہ علوم والی بات تو پرانی ہے، اب تو اور کئی علوم بھی متعارف ہوگئے ہیں، اب تو سولہ یا اٹھارہ علوم کی قید لگائی جاسکتی ہے۔
چوتھا حق:۔۔۔ حکم، اقامت اور عمل
قرآن مجید کا چوتھا حق یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ قرآن مجید نہ تو جادو منتر کی کتاب ہے کہ محض اس کا پڑھنا دفع بلیات کے لیے کافی ہے اور نہ ہی یہ محض حصول برکت اور ثواب کی کتاب ہے کہ دکان و مکان میں برکت یا مردے بخشوانے کے لیے اس کی تلاوت کی جائے، بلکہ یہ ’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ ہے، اس کامقصد نزول اس ہدایت کو حاصل کرنا ہے اور اُسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بناناہے۔
ایک شخص تو وہ ہے جو تلاشِ حق میں لگا ہوا ہے، اس کو قرآن کے حق ہونے یا نہ ہونے کا یقین نہیں ہے، لیکن وہ لوگ جو اسے حق سمجھتے ہیں، اس پر ایمان رکھتے ہیں، ان کے لیے تو ضروری ہے کہ ہو قرآن کریم کو اپنی زندگی پر عملاً نافذ کریں، وہ قرآن کریم کی انگلی پکڑ کر چلنے کی کوشش کریں۔
عمل کے دو پہلو
پھر اس عمل کے بھی دو پہلو ہیں: ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی، ایسے احکام جن کا تعلق انفرادی زندگی سے ہے، ان کا تو انسان فی الفور مکلف ہے، البتہ ایسے احکام جن کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے ان کا فی الفور مکلف تو نہیں، لیکن ان کو درست کرنے کی کوشش کرنا یہ ضروری ہے۔
پانچواں حق: ۔۔۔ تبلیغ و تبیین
قرآن مجید کا پانچواں حق اُسے دوسروں تک پہنچانا ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’بَلِّغُوا عَنِّی وَ لَو أٰیَۃً‘‘۔ (سنن الترمذی، ج:۴، ص:۳۳۷، ط، دارالغرب الاسلامی، بیروت)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ تبلیغ کی ذمہ داری سے کوئی بھی بری نہیں، اگر چہ ایک ہی آیت آتی ہو۔ اصلاً تو یہ فریضہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ اور مفہوم کو اقوامِ عالم تک پہنچایا جائے، لیکن بدقسمتی سے جس جس کی یہ ذمہ داری تھی وہ خود محتاج ہے کہ اس تک پہنچایا جائے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم و تعلم قرآن کی ایک ایسی رَوچل پڑے کہ تمام مسلمان قرآن کریم کو سیکھنے سکھانے میں لگ جائیں۔
قرآن مجید کے یہ پانچ حقوق ہیں، لیکن عام طور پر جو حقوق سمجھے جاتے ہیں، وہ یہ ہیں: ریشمی جز دان میں رکھا جائے۔ جہیز میں دیا جائے۔ نزع کے وقت سرہانے کے قریب یا نئی دکان و مکان میں اس کی تلاوت کی جائے۔ عدالتوں میں قسم اٹھاتے وقت سر پر رکھا جائے۔ پریشانی کے وقت فال نکالا جائے۔ نعوذ باللہ من ذٰلک۔
قرآن کے ساتھ ہمارا طرزِ عمل
حضرت عبیدہ ملیکی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یا أھل القرآن! لا تتوسدوا القرآن اتلوہ حق تلاوته من أٰناء اللیل و النھار و افشوہ و تغنوہ و تدبروا فیه لعلکم تفلحون‘‘۔ (رواہ البیہقی)
ترجمہ: ’’اے اہل قرآن! اس قرآن کو پس پشت نہ ڈالو، اور اس کی تلاوت کرو جیسا اس کا حق ہے صبح اور شام، اور اس کو پھیلاؤ، اور اسے خوبصورت آوازوں سے پڑھو، اور اس میں تدبر کرو تا کہ تم فلاح پاؤ‘‘۔
’لا تتوسدوا‘ یعنی پس پشت نہ ڈالو، سہارانہ بناؤ۔ ہم نے برکت کی کتاب سمجھ کر طاق میں رکھ دیا، اپنی قسموں کے لیے تختہ مشق بنادیا، مرتے ہوئے شخص کے پاس سورہ یٰسین پڑھ لیتے ہیں، بیٹی کو ٹی وی کے ساتھ جہیز میں قرآن بھی دے دیتے ہیں۔ ہمارے حال پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان صادق آتا ہے: ’’ان اللہ یرفع بھذا الکتاب أقواما و یضع به آخرین‘‘۔ (صحیح مسلم)
ترجمہ: ’’بلاشبہ اللہ تعالی اس کتاب (قرآن) کے ذریعہ بہت سی قوموں کو بلند کرتا ہے اور اس کے ذریعہ بہت سوں کو گراتا ہے‘‘۔
یعنی دنیا میں بحیثیت قوم ہماری تقدیر اس کتاب سے جڑی ہوئی ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’و قد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعدہ ان اعتصمتم به: کتاب اللہ‘‘۔ (صحیح مسلم)
ترجمہ: ’’میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ کر جارہا ہوں کہ جب تک اس کے ساتھ چمٹے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ اللہ کی کتاب (قرآن) ہے‘‘۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے:
«عن علی رضی الله عنه قال: إنی سمعت رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول: إنَّها سَتَکُونُ فِتنةٌ، قُلتُ: ما المخرج یا رسول الله صلی الله علیه وسلم؟ قال: کتاب الله، فیه نَبَأُ ما قَبلَکم و خبرُ ما بَعدَکم و حُکمُ ما بینکم، هو الفصلُ لیس بالهزل، من ترکه من جَبَّارٍ قَصَمَه اللهُ و مَنِ ابتغی الهُدی فی غیره أضلَّهُ اللهُ و هو حَبلُ اللهِ المَتینُ، و هو الذکرُ الحکیم، و هو الصراط المستقیمُ.» (سنن الترمذی، ج:۵، ص:۱۷۲، ط:دار احیاء التراث العربی، بیروت)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب فتنہ ظاہر ہوگا، میں نے پوچھا اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ (اگر آج کا مسلمان ہوتا تو فوراً پوچھتا کب ہوگا؟ کہاں ہوگا؟ کیا ہوگا؟ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اپنی ایسی فکر لگی ہوتی تھی کہ فوراً اس سے خلاصی کا طریقہ پوچھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے خلاصی اللہ کے کتاب قرآن ہے، اس میں تم سے پہلے اور بعد کی خبریں ہیں اور اس میں تمہارے درمیان فیصلے ہیں، وہ قول فیصل ہے، فضول بات نہیں ہے، جو جابر سرکش اس کو چھوڑے گا اللہ اس کو توڑ کر رکھ دے گا، اور جو اس کے علاوہ ہدایت تلاش کرے گا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، قرآن ہی حبل اللہ ہے، اور محکم نصیحت نامہ ہے، اور صراط مستقیم ہے‘‘۔
قرآن حبل اللہ ہے
سورہ حج میں فرمایا: ’’وَاعتَصِمُوا باللہ‘‘۔ لیکن بات واضح نہیں تھی، پھر اس کی شرح سورہ آل عمران میں بیان فرمائی: ’’وَاعتَصِمُوا بِحَبلِ اللہِ‘‘ اب بھی بات واضح نہیں تھی تو احادیث میں اس کی تشریح فرمائی:
۱: ترمذی شریف کی حدیث میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ھو حبل اللہ المتین‘‘ یہی قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے۔ ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے، ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے، دیکھا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم قرآن کا مذاکرہ کررہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
۲: «ألیس تشهدون أن لا إله إلا الله وحده لا شریک له و أنی رسول الله و أن القرآن جاء من عندالله؟ قلنا بلی. قال فأبشروا فإن هذا القرأن طرفه بیدالله و طرفه بأیدیکم فتمسکوا به فإنکم لن تهلکوا و لن تضلوا بعده أبداً»(طبرانی کبیر)
ترجمہ: ’’کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اور قرآن اللہ کی کتاب ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے فرمایا: کیوں نہیں؟! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوشخبری حاصل کرو، یہ قرآن اس کی ایک طرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسری طرف تمہارے ہاتھ میں ہے، لہذا اس کو مضبوطی سے تھام لو، اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے‘‘۔
اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت میں ہے:
’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: کتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء إلی الأرض‘‘۔
ترجمہ: ’’اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی ہے‘‘۔
اکابرین امت کی نظر میں تمام مسائل کا حل قرآن مجید میں
حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ
اگر ایک شخص مسلمانوں کی تمام موجودہ تباہ حالیوں اور بدبختیوں کی علت حقیقی دریافت کرنا چاہے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگادے کہ صرف ایک ہی علت اصلی ایسی بیان کی جائے جو تمام علل و اسباب پر حاوی اور جامع ہو تو اس کو بتایا جاسکتا ہے کہ علماء حق و مرشدین صادقین کا فقدان اور علماء سوء و مفسدین دجالین کی کثرت:
’’رَبنا انا اطعنا سادتنا و کبراء نا فاضلونا السبیلا‘‘۔
اور پھر اگر وہ پوچھے کہ ایک ہی جملہ میں اس کا علاج کیا ہے؟ تو اس کو امام مالک رحمہ اللہ کے الفاظ میں جواب ملنا چاہیے کہ:
’’لایصلح آخر ھذہ الامة الا بما صلح به اولھا‘‘۔
یعنی امت مرحومہ کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہوسکے گی تو وقتیکہ وہی طریق اختیار نہ کیا جائے جس سے اس کے ابتدائی عہد نے اصلاح پائی تھی، اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قرآن حکیم کے اصلی و حقیقی معارف کی تبلیغ کرنے والے مرشدین صادقین پیدا کیے جائیں۔ (البلاغ، جلد اول، شمارہ اول، مورخہ بارہ نومبر ۱۹۱۵ء)
حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ
مفتی محمد شفیع مرحوم و مغفور فرماتے ہیں کہ: ’’میں حضرت مولانا سید محمد انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک دن نماز فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت غمزدہ بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا: ’’مزاج کیسا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ: ہاں! ٹھیک ہے، میاں! مزاج کیا پوچھتے ہو؟ عمر ضائع کردی۔ میں نے عرض کیا: حضرت! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گزری ہے، ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں، آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟ تو حضرت رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: ’’میں تمہیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی عمر ضائع کردی‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضرت! اصل بات کیا ہے؟ فرمایا: ’’ہمارے عمروں کا، ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کوششوں کا، خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفی مسلک کی ترجیح قائم کردیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں، یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا۔ اب غور کرتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی! پھر فرمایا: ’’ارے میاں! اس بات کا کہ کون سا مسلک صحیح تھا اور کون سا خطاء پر؟ اس کا راز تو کہیں حشر میں بھی نہیں کھلے گا اور نہ دنیا میں اس کا فیصلہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی قبر میں منکر نکیر پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترکِ رفع یدین حق تھا؟ (نماز میں) آمین زور سے کہنا حق تھا یا آہستہ کہنا حق تھا؟ برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا، روز محشر اللہ تعالی نہ امام شافعی رحمہ اللہ کو رسوا کرے گا، نہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو، نہ امام مالک رحمہ اللہ کو، اور نہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو۔۔۔ اور نہ میدان حشر میں کھڑا کرکے یہ معلوم کرے گا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے صحیح کہا تھا یا امام شافعی رحمہ اللہ نے غلط کہا تھا، ایسا نہیں ہوگا۔ تو جس چیز کا نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے، نہ برزخ میں، نہ محشر میں، اس کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کردی اور جو صحیح اسلام کی دعوت تھی، جو سب کے نزدیک مجمع علیہ اور وہ وسائل جو سبھی کے نزدیک متفقہ تھے اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیاء کرام علیہم السلام لے کر آئے تھے، جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا ، وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی، آج اس کی دعوت ہی نہیں دی جارہی، یہ ضروریاتِ دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں اور اپنے اور اغیار سبھی دین کے چہرے کو مسخ کررہے ہیں اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا چاہیے تھا وہ پھیل رہے ہیں، گمراہی پھیل رہی ہے، الحاد آرہا ہے، شرک و بت پرستی چلی آرہی ہے، حرام و حلال کا امتیاز اٹھ رہا ہے، لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فرعی و فروعی بحثوں میں، اس لیے غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کررہا ہوں کہ عمر ضائع کردی‘‘۔ (وحدت امت ص: ۱۳، مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ)
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: حضرت مولانا سید محمدانور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اجتہادی مسائل اور ان کے اختلاف جن میں ہم اور عام اہل علم الجھتے رہتے ہیں اور علم کا پورا زور اس پر خرچ کرتے ہیں، ان میں صحیح و غلط کا فیصلہ دنیا میں تو کیا ہوتا میرا گمان تو یہ ہے کہ محشر میں بھی اس کا اعلان نہیں ہوگا، کیونکہ رب کریم نے جب دنیا میں کسی امام مجتہد کو باوجود خطا ہونے کے ایک اجر و ثواب سے نوازا ہے اور ان کی خطا پر پردہ ڈالا ہے تو اس کریم الکرماء کی رحمت سے بہت بعید ہے کہ وہ محشر میں اپنے ان مقبولانِ بارگاہ میں سے کسی کی خطا کا اعلان کرکے اس کو رسوا کریں۔
دو عظیم شخصیات
کالجوں یونیورسٹیوں سے نکلنے والے لوگوں میں چوٹی کی شخصیت علامہ اقبال رحمہ اللہ ہیں، اور مدارس و دارالعلوموں سے نکلنے والے لوگوں میں سے چوٹی کی شخصیت شیخ الہند رحمہ اللہ ہیں۔
شیخ الہند رحمہ اللہ 
مولانا مرحوم جمعیت علماء ہند کے صدر تھے، اس میں بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث تمام علماء شامل تھے۔ آپ نے تحریک ریشمی رومال چلائی تھی، آپ رحمہ اللہ کو حجاز سے انگریزوں نے گرفتار کرکے جزیرہ مالٹا میں قید کیا تھا، چار سال قید کے بعد جب ٹی بی کا مرض تیسری سٹیج پر پہنچا تو انگریزوں نے رہا کردیا۔ آپ جب رہا ہو کر بمبئی کے ساحل پر پہنچے تو آپ کا استقبال کرنے مہاتما گاندھی بھی آیا تھا۔ رہائی کے بعد ایک مرتبہ دارالعلوم دیوبند میں علما کے ایک مجمع میں آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں‘‘۔ یہ الفاظ سُن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہوگیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے اسّی سال علماء کو درس دینے کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟ فرمایا کہ:
’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے: ایک ان کا قرآن کریم کو چھوٹ دینا، دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے، اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔‘‘
مفتی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’نبّاضِ امت نے ملت مرحومہ کے مرض کی جو تشخیص اور تجویز فرمائی تھی، باقی ایّام زندگی میں ضعف و علالت اور ہجوم مشاغل کے باوجود اس کے لیے سعی پیہم فرمائی‘‘۔ (وحدتِ امت)
علامہ اقبال رحمہ اللہ:
علامہ اقبال رحمہ اللہ نے جو حل تجویز فرمایا، وہ ہے:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
علامہ رحمہ اللہ اپنی فارسی کی شاعری میں اسی بات کو ایک اور انداز سے بیان فرماتے ہیں:
خوار از مہجوریِ قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
اے چوں شبنم بر زمیں افتندہ
در بغل داری کتابِ زندہ
’’ہم کو چھوڑ کر خوار ہو رہے ہیں اور شکوہ زمانے کا کر رہے ہیں، اے وہ شخص جو شبنم کی طرح زمین پر گرا پڑا ہے، تیری بغل میں ایک زندہ کتاب ہے (اس سے استفادہ کر)‘‘۔
در اصل یہ سورہ فرقان کی اس آیت کا مفہوم ہے، جس میں اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فریاد استغاثہ کو ذکر فرمایا:
«وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا »(الفرقان:۳۰)
’’اور کہے گا رسول، اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو نظر انداز کردیا تھا‘‘۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
’’اگر تو مسلمان زندہ رہنا چاہتا ہے تو یہ قرآن کے بغیر ممکن نہیں ہے‘‘۔
اپنی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں، آپ کو واضح طور پر نظر آئے گا کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن مضبوطی سے تھامے رکھا، اسی کو حقیقی معنوں میں اپنا ہادی و راہنما سمجھا، اپنے عمل، اخلاق اور معاملات کو اسی کے مطابق استوار رکھا تو انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر ان کا رعب اور دبدبہ قائم رہا، دنیا میں وہ سربلند اور غالب رہے اور اسلام کا جھنڈا چہار دانگ عالم میں لہراتا رہا، لیکن جیسے جیسے وہ کتاب اللہ سے بے پروا اور نور و حکمت کے اس خزینہ سے بے تعلق ہوتے چلے گئے، ویسے ویسے ان پر زوال کے سائے گہرے ہوتے گئے اور وہ بتدریج فساد اور انحطاط میں مبتلا ہوتے چلے گئے اور نتیجتاً مغلوب ہوگئے۔ چنانچہ سب سے پہلے ان کے عقائد خراب ہوئے، پھر اعمال بگڑے، پھر سنت کی جگہ بدعت نے لے لی، پھر ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا، وہ بیشمار فرقوں اور قومی و نسلی و جغرافیائی تعصبات میں تقسیم ہوگئے.

Saturday 24 September 2016

مروجہ اونی یا سوتی جرابوں پر مسح جائز نہیں
 من جملہ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ جرابوں پر مسح کرنا بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں احکامِ وضوبیان فرماتے ہوئے فرمایا :
یاایھاالذین امنوا۔۔ وارجلکم الی الکعبین
(المائدہ :آیت6(
قرآن مجید کی اس آیت کا تقاضایہ تھا کہ وضو میں ہمیشہ پاؤں دھوئے جائیں۔ کسی بھی صورت میں ان پر مسح جائز نہ ہو، لیکن موزوں پر مسح حضورﷺ کے اتنی قولی ،فعلی اور تقریری احادیث سے ثابت ہے جومعنیً متواتر یا کم از کم مشہور کے درجے تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ان روایات کی وجہ سے پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں پاؤں دھونے کا حکم تب ہے جب موزےنہ پہنے ہوں اور اگر موزے پہنے ہوں تو تب دوران وضو ان پر مسح کرنا جائز ہوگا ۔
)۱(محدث کبیر امام ابن منذرؒ حضرت حسن بصری ؒ سے نقل فرماتے ہیں:
حدثنی سبعون من اصحاب رسول اللہ ﷺ انہ مسح علی الخفین
(الاوسط لابن المنذر ج1ص430(
ترجمہ:
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر صحابہ سے سنا کہ حضور ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔
:2قد صرح جمع من الحفاظ بان المسح علی الخفین متواتروجمع بعضھم رواتہ فجاوزالثمانین ومنھم العشرة
(فتح الباری کتاب الوضوء، باب المسح علی الخفین(
ترجمہ:
حدیث کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ خفین پر مسح کا حکم متواتر ہے۔ بعض حضرات نے خفین کے مسح کی روایت کرنے والے صحابہ کرامؓ کی تعداد کو جمع کیا تو ان کی تعداد 80سے بھی زیادہ تھی، جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل تھے۔
)۳( حضرت ملاعلی قاریؒ مشکوٰة کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:
قال الحسن البصری ادرکت سبعین نفراًمن الصحابة یرون المسح علی الخفین ولٰہذا قال ابوحنیفة ماقلت بالمسح حتیٰ جاءنی فیہ مثل ضوءالنھار۔
(المرقاة ج2ص77(
ترجمہ: حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا میں نے ستر ایسے صحابہ کو پایا جو خفین پر مسح کے قائل تھے۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے اسی وجہ سے فرمایا کہ میں خفین پر مسح کا اس وقت تک قائل نہ ہواجب تک میرے پاس اس کے دلائل اس حد تک واضح وروشن نہ ہوئے جس طرح دن کی روشنی ہوتی ہے۔
موزوں پر مسح کے جواز اورعدم جواز کے اعتبار سے اصولی طورپر اس کی تین قسمیں بنتی ہیں۔
)۱( حقیقی خفین :(چمڑے کے موزے )ان پر باجماع امت مسح کرنا جائز ہے۔
)۲( حکمی خفین :(وہ موزے جو چمڑے کے نہ ہوں لیکن موٹے ہونے کی بناءپر ان میں اوصاف چمڑے کے موزوں ہوں)ایسے موزوں پر مسح کے بارے میں فقہاءکا اختلاف ہے، جمہور فقہاءکافتوی انہی موزوں پر جواز کا ہے۔
)۳(غیر حقیقی غیرحکمی خفین:(مروجہ اونی ،سوتی یانائیلون کی جرابیں)ایسی جرابوں کے بارے میں جمہور امت کا اتفاق ہے کہ مسح جائز نہیں۔
)۱ (ملک العلماءامام علاءالدین ابوبکر بن سعودالکاسانی الحنفی تحریر فرماتے ہیں:
”فان کانا رقیقن یشفان الماءلایجوز المسح علیھا باجماع“
(بدائع الصنائع ج1ص83کتا ب الطہارة(
ترجمہ: اگر موزے اتنے پتلے ہوں کہ ان میں سے پانی چھن جاتا ہو تو ان پر بالاجماع مسح جائز نہیں۔
)۲(امام ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ المقدسی الحنبلی نے اپنی کتاب ”المغنی“میں مسئلہ”مسح علی الجوربین“کے تحت فرمایا ہے:
لایجوز المسح علیہ الا ان یکون مما یثبت بنفسہ ویمکن متابعة المشی فیہ واما الرقیق فلیس بساتر۔
(المغنی لابن قدامہ ج1ص377مسئلہ85(
ترجمہ: کپڑے کے موزے پر مسح جائز نہیں۔ ہاں اگر موزے اتنے مضبوط ہوں کہ پنڈلی پر خود سے ٹھہرے رہیں اور ان کو پہن کر مسلسل اور غیرمعمولی چلنا ممکن ہو ۔جہاں تک پتلے موزوں کا معاملہ ہے (جن میں مذکورہ شرائط نہ ہوں)تو وہ پاؤں کے لئے ساتر نہیں۔
ہر مسئلے کی طرح لامذہب فرقہ غیرمقلدین نے جمہور امت کے اجماع اور تعامل سے ہٹ کر اپنا ایک نیا اور امتیازی موقف اختیار کیا ہے ۔اور مروجہ اونی ،سوتی یا نائیلون وغیرہ کی جرابوں کو موزوں کی مماثل قرار دے کر ان پر بھی مسح کو جائز کہا۔
(نماز نبوی ص77)
اپنے اس موقف پر چند ان ضعیف روایات کا سہارا لیا جواصول جرح وتعدیل کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں۔
غیر مقلدین کے مستدلات اور ان کا جائزہ
)۱(عن مغیرة بن شعبة قال توضاالنبی ﷺ ومسح علی الجوربین والنعلین
(سنن ابی داود ج1ص33باب المسح علی الجوربین(
اس حدیث کے ذیل میں غیرمقلد عالم مولوی عبدالرحمان مبارک پوری نے مختلف ائمہ کے اقوال نقل کرکے اس کو ضعیف اور ناقابل استدلال ٹھہرایا ہے۔چنانچہ لکھا ہے (۱) ضعفہ کثیر من ائمة الحدیث ترجمہ: حدیث کے کافی سارے اماموں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔(۲) امام مسلم بن الحجاج فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ابوقیس اودی اور ہزیل بن شرحبیل نے حدیث کے بقیہ تمام راویوں کی مخالفت کی ہے باقی رواة نے موزوں پر مسح کو نقل کیا ہے ۔لہذا ابوقیس اور ہذیل جیسے راویوں کی وجہ سے قرآن کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔
(تحفة الاحوذی ج1ص 346,347باب ماجاءفی المسح علی الجوربین)
(۳) امام بیہقی ؒ نے اس حدیث کو منکر کہا ہے (سنن البیہقی ج1ص290 کتاب الطہارة ،باب کیف المسح علی الخفین)
عبدالرحمن مبارکپوری حدیث کے ضعف پر ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرنے کے بعد حدیث کے بارے میں اپنا موقف سناتے ہیں کہ ”میرے نزدیک اس حدیث کا ضعیف قرار دینا مقدم ہے امام ترمذی ؒ کے حسن صحیح کہنے پر“
(تحفة الاحوذی ج1ص347)
دوسری دلیل:
عن ابی موسیٰ ان رسول اللہ ﷺ توضا ومسح علی الجوربین والنعلین۔
(ابن ماجہ ج1ص186کتاب الطہارة باب ماجاءفی المسح علی الجوربین والنعلین)
یہ حدیث بھی غیرمقلدین کے لئے حجت نہیں بنتی۔ اس لئے کہ اس کی سند پر ائمہ جرح وتعدیل نے کافی بحث کی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں امام یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی عیسیٰ بن سنان ضعیف الحدیث ہے۔
(تہذیب التہذیب ج8ص212)
امام الجرح والتعدیل حافظ شمس الدین الذہبی ؒاپنی کتاب میزان الاعتدال میں عیسیٰ بن سنان کے متعلق لکھتے ہیں کہ اما م احمد بن حنبل ؒ نے اس کے متعلق فرمایا کہ وہ ضعیف ہے ۔
(میزان الاعتدال ج5ص376)
مشہور غیرمقلد عالم عبدالرحمن مبارکپوری نے اپنی کتاب تحفۃ الاحوذی میں اس حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے امام ابوداود کا قول نقل کیا ہے کہ ”یہ حدیث نہ متصل ہے اور نہ قوی ہے“ابوحازم نے حدیث کے راوی سفیان کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے حدیث لکھی تو ہیں لیکن بطور استدلال پیش نہیں کی جاسکتیں۔
تیسری دلیل:
عن بلال ؓ ان رسول اللہ ﷺ یمسح علی الخفین والجوربین.
(طبرانی ج1ص350رقم1063)
یہ حدیث بھی بطور حجت پیش نہیں کی جاسکتی اس لئے کہ امام زیلعیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں یزید بن زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے ۔
(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص185,186)
(۲)حافظ ابن حجر ؒفرماتے ہیں کہ یزید ضعیف تھا، آخری عمر میں اس کی حالت بدل گئی تھی اور وہ شیعہ تھا۔
(تقریب ج2ص365)
چوتھی دلیل:
عن ثوبان قال بعث رسول اللہ ﷺ سریة فاصابھم البرد فامرھم ان یمسحوا علی العمائم والتساخین۔
(ابوداود ج 1ص 19)
اس حدیث کے بارے میں عبدالرحمن مبارک پوری لکھتاہے کہ یہ حدیث منقطع ہے ۔امام ابن ابی حاتم کتاب المراسیل ص22پر امام احمدؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ حدیث کے راوی راشد بن سعد کا سماع ثوبان سے ثابت نہیں۔
(تحفة الاحوذی ج1ص330)
(۲)تساخین کے لغت میں تین معانی کئے گئے ہیں۔(۱)ہانڈیاں (۲)موزے(۳)علماءکے سر پر ڈالنے کا کپڑا
(المنجد ص474)
لہذا متعین طور پر اس کو صرف جرابوں پر حمل کرنا درست نہیں۔
مسح علی الجوربین کے بارے میں غیرمقلدین اکابر کی رائے
(۱)غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی لکھتا ہے:”مذکورہ (اونی یا سوتی)جرابوں پر مسح جائز نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں اور مجوزین نے جن چیزوں سے استدلال کیا ہے اس میں خدشات ہیں“
(فتاویٰ نذیریہ از نذیرحسین دہلوی ج1ص327)
(۲)دوسری جگہ لکھتا ہے ”خلاصہ یہ ہے کہ (باریک )جرابوں پر مسح کے جواز پر نہ قرآن سے کوئی دلیل ہے نہ سنت صحیحہ سے نہ قیاس سے۔“
(۳)غیرمقلدین کے مشہور عالم ابوسعید شرف الدین دہلوی کا جرابوں پر مسح کے بارے میں فتویٰ: ”پھر یہ مسئلہ (جرابوں پر مسح)نہ قرآن سے ثابت ہے نہ احادیث مرفوعہ صحیحہ سے نہ اجماع سے نہ قیاس سے نہ چندصحابہ کے فعل سے اور غسل رجلین قرآن سے ثابت ہے ۔لہذا خف چرمی(موزوں)کے سوا جرابوں پر مسح ثابت نہیں۔پتہ چلا کہ مسح علی الجوربین ایسا مسئلہ ہے جس کے جواز عدم جواز کے بارے میں غیرمقلدین کے خود آپس متفرق اقوال ہیں ۔لہذا ان ضعیف روایات کے بل بوتے پر پوری امت سے ہٹ کر ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانا اورجمہور امت کے تعامل کو جو کہ قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین ؒ کےعین موافق ہے، چھوڑنا ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ کچھ نہیں۔اللہ سے دعاہے کہ ہمیں سنت صحیحہ کی اتباع کی توفیق نصیب. فرمائے۔آمین


Monday 5 September 2016



سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد

سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسم گرامی کتنی سورتوں میں آیا ہے؟
جواب: ۲۵ سورتوں میں۔
سوال: قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسم گرامی کتنی مرتبہ آیا ہے؟
جواب: ۶۷ مرتبہ۔
سوال: اُس پیغمبر کا اسم گرامی بتائیے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے بعد اسلام کی عالمگیر دعوت کے لئے مقرر فرمایا تھا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کن کن علاقوں میں تبلیغ فرمائی تھی؟
جواب: عراق سے مصر تک، شام اور فلسطین سے عرب کے مختلف گوشوں تک، برسوں دینِ حق کی تبلیغ فرمائی، آپؑ کی تبلیغ کا مرکزی نقطہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اطاعت و فرمانبرداری کی دعوت دینا تھا، جو اسلام ہی کی دعوت تھی۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دین حق کی تبلیغ کے لئے شرقِ اُردن میں کس کو اپنا خلیفہ بناکر بھیجا تھا؟
جواب: اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کو۔
سوال: بتائیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تبلیغِ دین کے لئے شام و فلسطین میں کس کو اپنا خلیفہ بناکر بھیجا تھا؟
جواب: اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو ۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو کن علاقوں میں تبلیغ کے لئے بھیجا تھا؟
جواب: عرب کے اندرونی علاقوں میں۔
سوال: بیت اللہ شریف کہاں ہے اور اس کی تعمیر کس نے کی تھی، کس کے حکم سے کی اور کیوں کی تھی؟
جواب: بیت اللہ شریف مکہ مکرمہ عرب میں ہے، جسے کعبۃ اللہ بھی کہتے ہیں، اس کی تعمیر حضرت ابرہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم سے کی تھی تاکہ یہ دینِ حق کی اشاعت کا مرکز بنے۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے ہونے والے پیغمبر کا نام بتائیے؟
جواب: سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل میں ہونے والے چند پیغمبروں کے اسمائے گرامی بتائیے؟
جواب: حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کتنے بیٹے تھے، ان کے نام بتائیے؟
جواب: دو بیٹے تھے، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ محترمہ کا نام بتائیے؟
جواب: حضرت ہاجرہؓ۔
سوال: حضرت اسحاق علیہ السلام کی والدہ محترمہ کا نام بتائیے؟
جواب: حضرت سارہؓ۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کونسے پڑپوتے پیغمبر تھے، ان کا نام و نسب بتائیے؟
جواب: حضرت یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کیوں دنیا کے لے امام اور پیشوا بنایا تھا؟
جواب: تاکہ ساری دنیا کو ایک اللہ کی اطاعت کی طرف بلائیں اور انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا نظام درست کریں۔
سوال: اسرائیل کون تھے اور اسرائیلی کن کو کہتے ہیں؟
جواب: اسرائیل (اللہ کا بندہ) حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا اور ان کی اولاد کو اسرائیلی کہتے ہیں۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دنیا کا امام و پیشوا بنانے سے قبل اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امام بنانے سے قبل ان کو چند چیزوں میں آزمایا جن میں وہ پورے اترے۔
سوال: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزمانےپر کامیاب ہونے کے بعد جب ان سے فرمایا کہ میں تمہیں سب لوگوں کا امام بنانے والا ہوں ، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا عرض کیا؟
جواب: انہوں نے عرض کیا : کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے امامت کی خوشخبری سنائی تو انہوں نے اللہ سے عرض کی کہ کیا میرے ساتھ میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے، یعنی یہ وعدہ آپ کی اس اولاد کے لئے ہے جو صالح ہوگی اور ان میں سے جو ظالم ہوگا ان کے لئے یہ وعدہ نہیں ہے۔
سوال: مقامِ ابراہیم کیا ہے؟
جواب: یہ ایک پتھر ہے جو اس وقت کعبۃ اللہ کے سامنے ایک شیشے کے اندر بند ہے، اس پتھر پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبۃ اللہ تعمیر کئے تھے اور انہیں جس قدر بلندی کی ضرورت ہوتی تھی یہ پتھر خود بخود اونچا ہوجاتا تھا۔
سوال: اللہ تعالیٰ نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو کس کام کا حکم دیا تھا؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ میرے اس گھر کو طواف ، اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھو۔
سوال: کعبۃ اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا دعاء فرمائی تھی؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعاء فرمائی کہ: میرے رب! اس شہر کو امن کا شہر بنادے اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق عطا فرما۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کے بعد جب اللہ تعالیٰ سے دعاء فرمائی کہ اللہ اور آخرت کو ماننے والوں کو ہر قسم کے پھلوں کا رزق عطا فرما، تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: اور جو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسے بھی دوں گا، مگر آخر کار اسے عذابِ جہنم کی طرف گھسیٹوں گا اور وہی بدترین ٹھکانہ ہوگا۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام جب کعبۃ اللہ کی دیواریں تعمیر کررہے تھے تو کونسی دعاء کرتے تھے؟
جواب: اے رب! ہم دونوں کو مسلم( مطیع و فرمانبردار) بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے سکھا اور ہماری کوتاہیوں کو معاف فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے، اور اے رب ان لوگوں میں خود انہیں میں سے ایک ایسا رسول پیدا فرما جو انہیں تیری آیات سنائیں اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیں اور ان کی زندگیوں کو سنواریں، تو بڑی قدرت والا حکمت والا ہے۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جو دعاء کعبۃ اللہ کی دیواریں تعمیر کرتے وقت کی تھی کہ اے اللہ ان میں آیات اللہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم دینے والے نبی کو مبعوث فرما تو اللہ نے کس نبی کو بھیجا؟
جواب: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: ارشاد فرمایا: ابراہیم تو وہ شخص ہے جن کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لئے چن لیا تھا اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہوگا، ان کا حال یہ تھا کہ جب ان کے رب نے کہا"مسلم ہوجاؤ" تو انہوں نے فوراً کہا "میں مالکِ کائنات کا فرمانبردار ہوں"اور اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت انہوں نے اپنی اولاد کو بھی کی تھی۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کہاں کے رہنے والے تھے؟
جواب: عراق کے شہر " اُر"کے رہنے والے تھے۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کیا کام کرتے تھے؟
جواب: وہ ریاست کے بڑے عہدیدار بھی تھے اور بت تراشتے تھے۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت عراق کا حکمران کون تھا؟
جواب: نمرود۔
سوال: نمرود کس اعتبار سے اپنے آپ کو رب کہتا تھا؟
جواب: وہ کہتا تھا کہ عراق اور اس کے باشندوں کا حاکمِ مطلق میں ہوں، میری زبان قانون ہے، میرے اوپر کوئی اقتداروالا نہیں جس کے سامنے میں جوابدہ ہوں، لہٰذا عراق کا ہر وہ باشندہ جو اس اعتبار سے مجھے اپنا رب تسلیم نہ کرے یا میرے سواءکسی دوسرے کو رب مانے وہ باغی اور غدار ہے۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود کے ساتھ کیا جھگڑا تھا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام اسے کسی اعتبار سے بھی رب تسلیم نہیں کرتے تھے، اس لئے نمرود انہیں باغی سمجھتا تھا۔
سوال: جب نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ تمہارا رب کون ہے؟ تو انہوں نے کیا جواب دیا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا میرا رب وہ ہےجو زندگی اور موت دینے والاہے۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب کہا کہ میرا رب زندگی اور موت دینے والا ہے تو نمرود نے جواب میں کیا کہا؟
جواب: اس نے کہا:زندگی اور موت تو میرے اختیار میں ہے( جسے چاہے مار سکتا ہوں اور جسے چاہے زندہ رکھ سکتا ہوں)۔
سوال: نمرود کا جواب کہ زندگی اور موت تو میرے اختیار میں بھی ہے، سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا فرمایا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اچھا تو میرا رب سورج مشرق سے نکالتا ہے تو مغرب سے نکال کر بتا۔
سوال: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے سورج مغرب سے نکالنے کا مطالبہ کیا تو نمرود نے کیا کہا؟
جواب: وہ کچھ نہ کہہ سکا، لاجواب ہوکر گھبرا گیا اور حیران و پریشان ہوگیا۔
سوال: مردہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے زندہ ہوتے دیکھ کر اطمینانِ قلبی کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ سے فرمایا کہ مجھے دکھادیجئے کہ آپ مردوں کو کیسے زندہ کرتے ہیں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے آپ سے کیا فرمایا؟
جواب: اللہ نے فرمایا: کیا تم ایمان نہیں رکھتے؟ آپ نے عرض کیا: میں تو ایمان رکھتا ہوں مگر اطمینانِ قلبی چاہتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اچھا! تو پرندے لو اور ان کو اپنے سے مانوس کرلو، پھر ان کو کاٹ کر ان کا ایک ایک جزء ایک پہاڑ پر رکھ دو، پھر ان کو پکارو، وہ تمہارے پاس دوڑ کر آئیں گے، خوب جان لو کہ اللہ بے انتہاء قدرت اور حکمت والا ہے۔
(حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اورپرندوں کو دوبارہ زندہ ہوتے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور قلبی اطمینان بھی حاصل ہوگیا۔)
سوال: دنیا کی سب سے پہلی عبادت گاہ کونسی ہے؟
جواب: کعبۃ اللہ جو مکہ مکرمہ میں ہے۔
سوال: اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کی جن فضائل کا ذکر کیا ان میں سے چند بتائیں؟
جواب: دنیا کی سب سے پہلی مسجد، خیرو برکات اور رحمتوں کے نزول کی جگہ، سب کے لئے مرکزِ ہدایت، اس میں داخل ہونے والا محفوظ ہوگا، امن کی جگہ، حج و عمرہ کا مرکز، وہاں کی نماز کا ثواب سب سے زیادہ، دنیاکی پاکیزہ ترین جگہ۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کا لقب کیا ہے؟
جواب: خلیل اللہ (اللہ کے دوست)۔
سوال: قرآن مجید کی وہ کونسی سورۃ اور آیت ہے جس میں اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دوست بنانے کا ذکر فرمایا؟
جواب: سورۂ نساء، آیت نمبر ۱۲۵۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کو کن الفاظ میں ان کی گمراہی سے متعلق آگاہ کیا؟
جواب: کیا آپ بتوں کو خدا بناتے ہیں،؟ میں تو آپ کو اور آپ کی قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کس زمانہ میں گذرے؟
جواب: ۲۱۰۰ قبلِ مسیح میں ، یعنی آج سے تقریباً چار ہزار (۴۰۰۰) سال قبل۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کے سب سےبڑے بُت کا نام بتائیے؟
جواب: ننار۔
سوال: سورج، چاند ، ستاروں اور آگ کی پوجا کرنے والوں اور بت پرستوں کے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کائنات کا خوب مطالعہ کرنے کے بعد کن الفاظ میں شرک سے اپنی بیزار کا اعلان فرمایا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اے میری قوم! میں ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک بناتے ہو، میں نے یکسو ہو کر اپنا رخ خالص اس ذات کی طرف کرلیا ہے جو آسمان و زمین کا خالق ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے بہت سے پیغمبروں کا ذکر کرنے کے بعد سورۂ انعام کی ۸۴۔تا۔۸۸ آیات میں ان کے کن فضائل کا ذکر فرمایا بتائیے؟
جواب: ان میں سے ہر ایک کو ہم نے تمام دنیا والوں پر فضیلت دی، نیز ان کے آباء و اجداد اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سےبہتوں کو ہم نے نوازا، انہیں اپنی خدمت کے لئے چن لیا اور سیدھے راستہ کی طرف ان کی رہنمائی کی، یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے، لیکن اگر وہ لوگ شرک کرتے تو ان کے اعمال غارت ہوجاتے، یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے نبوت ، کتاب اور حکمت عطاء کی تھی۔
سوال: حضرت محمد ﷺ کی زبان مبارک سے اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کس طرح تعریف کروائی، بتائیے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمدؐ! کہو کہ میرے رب نے بیشک مجھے سیدھا راستہ دِکھادیا، بالکل سیدھا جس میں ذرہ برابر ٹیڑھا پن نہیں، ابراہیمؑ کا طریقہ ہے جسے انہوں نے یکسو ہوکر اختیار کرلیا تھا اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جن خوبیوں کا کر قرآن مجید میں کیا ہے ان کا مختصر ذکر کریں؟
جواب: (۱)ہم نے انہیں دنیا میں اپنے لئے منتخب کرلیا اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہوں گے۔
(۲)ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب مقدر کردی، دنیا میں بہترین اجر دیا، آخرت میں صالحین میں ہوں گے۔
(۳)ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم دل اور حلیم و بردبار تھے۔
(۴)ابراہیم علیہ السلام اللہ کی طرف رجوع رہنے والے تھے۔
(۵)ابراہیم علیہ السلام امام و پیشوا ، اللہ کے فرمانبردار اور حنیف(یکسو) اور سچے نبی تھے۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کتنی بیویاں تھی؟ ان کے نام بتائیے؟
جواب: تین بیویاں تھیں:
(۱) حضرت سارہ (حضرت اسحاق علیہ السلام کی والدہ)
(۲) حضرت ہاجرہ (حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ)
(۳) قطوار (مدیان کی والدہ)
سوال: جب بیت اللہ کی تعمیر مکمل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کیا حکم فرمایا؟
جواب: اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو،کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں ،اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی اُن اونٹنیوں پر سوار ہوکر آئیں جو(لمبے سفر سے)دُبلی ہوگئی ہوں،تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو اُن کے لئے رکھے گئے ہیں اور متعین دنوں میں اُن چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا کئے ہیں ،چنانچہ (مسلمانو!)اُن جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ،پھر (حج کرنے والے)لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی منتیں پوری کریں اور اس بیت عتیق کا طواف کریں۔
سوال: حج کے ایام میں خاص طور پر دو نفل کس مقام پر ادا کرنے کا حکم ہے جس کے بغیر طواف مکمل نہیں ہوتا۔
جواب: مقامِ ابراہیمؑ پر ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے جمع ہونے کی جگہ اور امن کا مقام بنایا اور حکم دیا کہ مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کہاں مدفون ہیں؟
جواب: بیت المقدس کے قریب حبرون کے قصبہ میں، جو آپ کی نسبت پر الخلیل کے نام سے مشہور ہے۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بت تراش اور بت پرست والد کو کس طرح توحید کی دعوت دی تھی قرآن مجید کے حوالہ سے بتائیے؟
جواب: یاد کرو جب انہوں نے اپنے والد سے کہا: اے میرے والد! آپ ایسی چیزوں کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں اور نہ وہ آپ کے کچھ کام آسکتے ہیں، اےمیرے والد! مجھے وہ علم ملا ہے جو آپ کو نہیں ملا، میرے ساتھ ہوجائیے ، آپ کو سیدھی راہ چلاؤں گا، اے میرے والد!شیطان کی پرستش مت کیجئے، بیشک شیطان اللہ کا نافرمان ہے، اے میرے والد! مجھے ڈر ہے کہ آپ کو اللہ کا غضب نہ آپکڑے، آپ شیطان کے ساتھی ہوجائیں گے۔
سوال: کعبۃ اللہ میں سب سے پہلے حجر اسود کس نے لگایا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے۔
سوال: جد الانبیاء کن کا لقب ہے؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کا۔
سوال: ایک دفعہ جب فرشتے انسانی شکل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے اور سلام عرض کیا تو آپ نے ان کو کیا کہا اور کس طرح ان کی ضیافت کی؟
جواب: آپ نے ان کے سلام کا جواب دیا اور پھر ایک بُھنے ہوئے بچھڑے سے ان کی ضیافت فرمائی۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جب انسانی شکل میں فرشتے آئے اور فرشتوں نے جب آپ کے ڈراور احساس کو دیکھا تو کیا کہا؟
جواب: فرشتوں نے کہا کہ آپ گھبرائیے مت، ہم قومِ لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جب فرشتے انسانی شکل میں آئے تو آپ کو کیا خوشخبری سنائی تھی؟
جواب: انہیں بیٹے (حضرت اسحاقؑ) اور پوتے (حضرت یعقوبؑ) کی خوشخبری دی۔
سوال: حضرت سارہ نے فرشتوں کی زبانی بیٹے اور پوتے کی خوشخبری سن کر کیا ردِ عمل ظاہر کیا؟
جواب: انہوں نے تعجب سے کہا : کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بوڑھی اور بانجھ ہوچکی ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہوچکے ہیں؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے!
سوال: حضرت سارہ نے جب فرشتوں سے بیٹے اور پوتے کی خوشخبری پر تعجب کا اظہار کیا تو فرشتوں نے کیا جواب دیا؟
جواب: فرشتوں نے کہا: اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ اے ابراہیم کے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔
سوال: جب فرشتوں نے بیٹے اور پوتے کی خوشخبری سنائی، اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بی بی سارہ کی عمر کیا تھی؟
جواب: بائبل کے مطابق اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام ۱۰۰ سال کے اور حضرت سارہ ۹۵ سال کی تھیں۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعائیں بتائیے جو آپ نے مکہ مکرمہ اور اپنی اولاد کے لئے اللہ تعالیٰ سے کی تھی؟
جواب: پروردگار اس شہر کو امن کا شہر بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا ہے، ممکن ہے میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کردیں، لہٰذا ان میں سے جو میرے طریقہ پر چلے وہ میرا ہے اور جو میری خلاف طریقہ کو اختیار کرے تو یقیناً تو معاف کرنے والا مہربان ہے، پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصہ کو تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے، پروردگار ! میں نے یہ اس لئے کیا کہ یہ لوگ نماز قائم کریں، لہٰذا تو ان کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل عطا فرما، شاید کہ یہ شکر گذار بنیں، پروردگار! تو جانتا ہے جو کہ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، واقعی اللہ سے کچھ نہیں چھپتا ، نہ زمین میں نہ آسمانوں میں، شکر ہے اس خالق کا جس نے مجھے اس بوڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق جیسے بیٹے دئے، حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دعاء سنتا ہے، اے میرے پروردگار! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، پروردگار! میری دعاء قبول فرماکر مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان والوں کو اس دن معاف فرمادے جبکہ حساب قائم ہوگا۔
سوال: کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی معافی کی دعاء میں اپنے والد کو کیوں شریک کرلیا تھا؟
جواب: انہوں نے وطن سے نکلتے وقت اپنے والد سے کہا تھا کہ میں تمہارے لئے اپنے رب سے معافی طلب کروں گا، اس وعدہ کی بناء پر انہوں نے دعائے مغفرت میں اپنےوالد کو شریک کرلیا تھا، لیکن جب بعد میں احساس ہوا کہ وہ دشمنِ الٰہی ہے تو براءت کرلی۔
سوال: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کو توحید کی دعوت دی تو والد نے ان کو کیا جواب دیا؟
جواب: انہو ں نے جواب دیا: ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے، اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا، بس تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے الگ ہوجا۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوتِ توحید کے جواب میں والد نے اپنے سے الگ ہوجانے کو کہا تو آپ نے کیا کیا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا: سلام ہے آپ کو، میں اپنے رب سے دعاء کروں گا کہ آپ کو معاف فرمادے، میرا رب مجھ پر بڑا مہربان ہے، میں آپ اور آپ کے ان بتوں کو چھوڑتا ہوں جنہیں آپ لوگ خدا کے سواء پکارتے ہو، میں تو اپنے رب کو پکار کر نامراد نہ رہو ں گا۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام والد اور قوم کو چھوڑ کرہجرت کرکے فلسطین آئے تو اللہ نے آپ کو کن نعمتوں سے نوازا؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کئےاور انہیں نبوت عطا کی، ان کو رحمت سے نوازا اور سچی ناموری عطا کی۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے کہا : تم نہ سننے والے اور نہ بولنے والے بتوں کو کیوں پوجتے ہو تو قوم نے کیا کہا؟
جواب: ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ان کی عبادت کرتے پایا اس لئے ہم بھی ان کی پرستش کرتےہیں۔
سوال: اپنی قوم کی یہ بات کہ ہم اپنے باپ دادا کو دیکھ کر بتوں کی پوجا کرتے ہیں سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا کہا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی کھلی گمراہی میں تھے۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے موقع پاکر جب تمام بتوں کو توڑدیا تو بڑے بت کو چھوڑدیا اور قوم کے پوچھنے پر کہ کیا تم نے انہیں توڑا ہے تو آپ نے کیا جواب دیا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:نہیں بلکہ یہ سب ان کے بڑے نے کیا ہے ، پوچھ لو ان سے اگر یہ بولتے ہوں؟
سوال: لوگ بتوں کے بارے میں حضرت ابراہیم ؑ کا یہ جواب کہ انہیں سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں تو، سن کر وہ کیا کہتے ہیں؟
جواب: وہ لوگ بولے: تم جانتے ہو کہ وہ نہیں بولتے، وہ دل میں کہہ رہے تھے کہ ہم خود ہی ظالم ہیں کہ ان بے جان مورتیوں کو پوجتے ہیں، مگر شیطان ان پر غالب آچکا تھا اس لئے وہ اپنے عقیدوں پر ڈٹے رہے۔
سوال: قوم کا جواب کہ ہم کیسے ان بتوں سے پوچھیں یہ بول نہیں سکتے، سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا جواب دیا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزو ں کو پوجتے ہو جو نہ بول سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں، نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان، افسوس ہے تم پر اور تمہارے معبودوں پر ، کیا تم ذرا سی بھی عقل نہیں رکھتے؟
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوتِ توحید اور بتو ں کی مذمت سنکر ان کے خلاف قوم نے کیافیصلہ کیا؟
جواب: قوم نے کہا : آؤ اپنے خداؤں کی مدد کریں اور سب نےحضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔
سوال: قوم نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیغامِ توحید سے تنگ آکر آپ کو آگ میں پھینکا تو آپ پر کیا گذری؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم فرمایا: اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی والی بن جا، وہ چا ہتے تھے ابراہیم کے ساتھ برا سلوک کریں مگر ہم نے ان کو بری طرح ناکام کردیا۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کتنے بھائی تھے اور ان کے نام کیا تھے؟
جواب: دو بھائی تھے: (۱)نحور (۲)حاران۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے اور حاران کے بیٹے کا نام بتائیے؟
جواب: حضرت لوط علیہ السلام۔
سوال: جلتی ہوئی آگ سے زندہ نکلتے ہوئے دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کے کتنے آدمی ایمان لائے؟
جواب: صرف ایک آدمی، آپ کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام ایمان لائے۔
سوال: آگ سے نکلنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا کیا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگ سے بچ نکلنے کے بعد وطن سے ہجرت کرکے فلسطین آگئے۔
سوال: فلسطین ہجرت کرتے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کس نے ساتھ دیا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کے وقت حضرت سارہ اور حضرت لوط علیہ السلام نے آپ کا ساتھ دیا۔
سوال: سورۂ مریم کی آیت نمبر:۴۱ میں اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبی ہونے کے ساتھ کس خطاب سے نوازا؟
جواب: صدیق کے خطاب سے نوازا، ارشاد باری ہے:بیشک وہ (ابراہیم علیہ السلام)ایک سچےانسان اور نبی تھے۔
سوال: حج کا طریقہ سب سے پہلے کس نے بتایا تھا؟
جواب: اللہ کے حکم کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتایا۔
سوال: جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا کہ ہم قومِ لوط کی طرف جارہے ہیں تو آپ نے کیا فرمایا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا وہاں تو لوط علیہ السلام موجود ہیں۔ (پھر کیا ہوگا؟)
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب فرشتوں سے کہا کہ وہاں لوط علیہ السلام ہیں ان کا کیا ہوگا؟تو فرشتوں نے کیا کہا؟
جواب: فرشتوں نے کہا:ہم جانتے ہیں وہاں کون کون ہیں، ان کی بیوی کے سواء انہیں اور ان کے تمام اہل کو ہم بچالیں گے۔
سوال: دنیا کے اس واحد انسان کا نام بتائیے جس کی نسل میں مسلسل نبی ہوئے اور ان کے نام بتائیے؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام۔ جن کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام نبی تھے، ان کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام نبی تھے، پھر ان کے پڑ پوتے حضرت یوسف علیہ السلام نبی تھے۔
سوال: معراج میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہاں دیکھا تھا؟
جواب: آسمان پر بیت المعمور کی دیوار سے ٹیک لگائے ہوئےتھے۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ازاوج کس خاندان سے تعلق رکھتی تھیں؟
جواب: حضرت سارہ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان سے تھیں۔
حضرت ہاجرہ شاہِ مصر کی بیٹی تھیں۔
سوال: اس پتھر کا نام بتائے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نشانِ قدم ہیں اور بتائیے کہ اب وہ پتھر کہاں ہے؟
جواب: اس پتھر کا نام مقامِ ابراہیم ہے، اور اس وقت وہ پتھر کعبۃ اللہ کے سامنے ایک شیشے کے باکس میں بند ہے۔
سوال: ان والدِ محترم کا نام بتائیے جنہوں نے اللہ کے حکم پر قربان کرنے کے لئے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری پھرائی تھی؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام!جنہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری پھرائی۔
سوال: ان والدِ محترم کا نام بتائیےجو اللہ کے حکم پر اپنے بڑے بیٹے کو ان کی ماں کے ساتھ عرب کے ریگستان میں بے یا ر مددگار چھوڑدیا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام! جنہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ مکہ کی پہاڑیوں کے درمیان ریگستان میں چھوڑدیا تھا۔
سوال: بتائیے سب سے پہلے ختنہ کس نے کرائی؟
جواب: اللہ کے حکم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے ختنہ کرائی۔
سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کے والدِ محترم کا نام بتائیے؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ محترمہ کا نام بتائیے؟
جواب: حضرت ہاجرہؓ ہے۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق قرآن مجید میں کیا کہا گیا ہے؟
جواب: اور اس کتاب میں اسماعیل کا بھی تذکرہ کرو،بےشک وہ وعدے کے سچے تھےاوررسول اور نبی تھے۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں کتنی مرتبہ ہے؟
جواب: ۱۲ مرتبہ۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بڑے بھائی کا نام بتائیے؟
جواب: حضرت اسماعیل علیہ السلام خود بڑے تھے، ان کے چھوٹے بھائی کا نام حضرت اسحاق علیہ السلام ہے۔
سوال: عرب مشہور قبیلہ قریش کے مورثِ اعلیٰ کا نام بتائیے؟
جواب: حضرت اسماعیل علیہ السلام۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کہاں پیدا ہوئے؟
جواب: ملک شام کے شہر کنعان میں۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام عرب کی غیرآباد وادی میں کیوں چھوڑ آئے تھے؟
جواب: صرف اللہ تعالیٰ کے حکم پر۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ سمیت جس غیر آباد مقام پر چھوڑاگیا تھا اس کا نام کیا ہے؟
جواب: مکہ مکرمہ۔
سوال: مکہ مکرمہ کا مشہور چشمہ زمزم کیسے وجود میں آیا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام جب حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو غیر آباد مکہ میں چھوڑ کر چلے گئے ، تو اس وقت یہ جگہ بالکل ویران تھی، حضرت ہاجرہ پانی ختم ہونے کے بعد جب حضرت اسماعیل علیہ السلام پیاس سےرونے لگے اور جب والدہ پانی کی تلاش میں ساتھ والی پہاڑیوں پرچڑھیں تو حضرت اسماعیل علیہ السلام جو ابھی شیرخوار تھے زمین پر پاؤں مارنے لگے جس طرح بچے مارتے ہیں، اللہ پاک نے ان کے پاؤں تلے اپنی قدرت سے ایک چشمہ جاری کردیا، جسے زم زم کہتے ہیں اور جو اب تک کنویں کی شکل میں بیت اللہ کے پاس موجود ہے۔
سوال: زم زم کے معنیٰ کیا ہیں؟
جواب: زم زم کے معنیٰ ٹہر جا ٹہرجا! ہیں، جب حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں ناکام پہاڑوں سے واپس لوٹیں تو اپنے بیٹے کے پاؤں تلے پانی دیکھ کر خوش ہوگئیں، انہوں نے اس خیال سے کہ پانی بہہ کر ختم نہ ہوجائے اس کے اِرد گرد زم زم ، زم زم کہتے ہوئے ایک بند لگادیا۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کو چھوڑ کر جانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کیا ان کی خبر گیری اور ملاقات کے لئے آتے تھے؟
جواب: ہاں ! آپ کئی مرتبہ وہاں ملاقات اور خبر گیری کے لئے آئے تھے۔
سوال: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کےحکم پر ذبح کررہے تھے اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر کیا تھی؟
جواب: وہ باشعور نابالغ لڑکے تھے۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کے بارے میں حکمِ الٰہی سنایا تو آپ نے کیا کہا؟
جواب: حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم کے سامنے اپنی گردن جھکادی اور فرمایا آپ مجھے صابرین میں پائیں گے۔
سوال: عید الاضحیٰ میں قربانی کرنا کس کی یادگار ہے؟
جواب: حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس واقعہ کی یادگار ہے جب آپ کو حکمِ الٰہی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کرنا چاہا تھا۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے جذبۂ فرمانبرداری کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ فرمایا؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بدلےجنت کا ایک دنبہ حضرت جبرئیلؑ کےذریعہ بھیجا اور فرمایا کہ آپ اپنے عہد میں پورے اترے ، یہ دنبہ ذبح کردیجئے، تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دنبہ ذبح کردیا۔
سوال: بیت اللہ کی تعمیر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کون مددگار تھے؟
جواب: حضرت اسماعیل علیہ السلام۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو ۱۰۰ سال کی عمر تک بغیر اولاد کے تھے ، اولاد کے لئے اللہ سےکیا دعاء فرمائی تھی؟
جواب: اے اللہ ! مجھے صالح (سعادتمند) اولاد عطا فرما۔
سوال: اسماعیل کے معنی کی ہیں؟
جواب: یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں: وہ بیٹا جس کے حق میں اللہ نے باپ کی دعاء سن لی۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کو مکہ کی ویران وادی میں چھوڑتے وقت کیا دعاء فرمائی تھی؟
جواب: اے رب!میں نے اپنی اولاد کو ویران وادی میں تیرے عزت والے گھر کے پاس لاکر بسا یا ہوں ،یا رب!یہ نماز قائم کریں، تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف مائل رہیں اور ان کو پھلوں سے روزی عطا فرما؛ تاکہ یہ تیرا شکر ادا کریں۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا ارادہ کیوں کیا تھا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب کے ذریعہ حکمِ الٰہی ہوا تھا کہ اپنے بیٹے کی اللہ کے لئے قربانی دیں، جو در اصل اطاعتِ الٰہی میں آپ کی آزمائش تھی، جس میں آپ کامیاب ہوئے۔
سوال: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکمِ الٰہی پر ذبح کرنے کے لئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلےپر چھری رکھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی تعریف کس طرح فرمائی؟
جواب: بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی اور ہم نے انہیں ایک بڑی قربانی کا فدیہ دیا اور پیچھے آنے والوں میں (اس قربانی) کو چھوڑا، سلام ہو ابراہیم پر، ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔
سوال: کعبۃ اللہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ نے کیا حکم فرمایا؟
جواب: ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو کہا کہ میرے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے والوں، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کےلئے صاف ستھرا رکھو۔
سوال: قرآن مجید میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذکر کن سورتوں اور کن آیات میں آیا ہے؟
جواب: سورۂ بقرہ آیت نمبر: ۱۲۵۔ ۱۴۵
سورۂ آل عمران آیت نمبر: ۸۴
سورۂ نساء آیت نمبر:۱۶۲
سورۂ انعام آیت نمبر:۸۶
سورۂ ابراہیم آیت نمبر:۳۹
سورۂ مریم آیت نمبر:۵۴
سورۂ انبیاء آیت نمبر:۸۵۔۸۶
سورۂ صافات آیت نمبر: ۱۰۰۔۱۱۰
سورۂ صٓ آیت نمبر ۴۸
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تفصیلی ذکر کس سورۃ میں ملتا ہے؟
جواب: کسی بھی سورۃ میں تفصیلی ذکر نہیں ہے۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت کا خلاصہ بیان کیجئے؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور ان کے لڑکے حضرت اسماعیلؑ کو لیکر چلے اور جہاں آج کعبۃ اللہ ہے اس جگہ ایک بڑے درخت کے نیچے زم زم کے موجودہ مقام سے بالائی حصہ پر ان کو چھوڑ گئے، وہ جگہ ویران اور غیر آباد تھی اور پانی کا بھی نام و نشان نہ تھا، ا س لئے ابراہیم علیہ السلام نے ایک مشکیزہ پانی اور تھیلی کھجور بھی ان کے پاس چھوڑدیا اور پھر منہ پھیرکر روانہ ہوگئے، حضرت ہاجرہ ان کے پیچھے پیچھے یہ کہتے ہوئے چلی آئیں کہ : اے ابرہیم! تم ہم کو ایسی وادی میں کہاں چھوڑ چلے جہاں نہ آدمی ہے نہ آدم زاد اور نہ کوئی مونس و غمخوار ہے،حضرت ہاجرہ برابر یہ کہتی جاتی تھیں، مگر ابراہیم علیہ السلام خاموش چل رہے تھے، آخر حضرت ہاجرہ نے دریافت کیا کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ہاں! یہ اللہ کا حکم ہے، حضرت ہاجرہ نے جب یہ سنا تو کہنے لگیں اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو بلاشبہ وہ ہم کو ضائع اور برباد نہیں کرےگا اور پھر واپس لوٹ گئیں، ابراہیم علیہ السلام چلتے چلتے جب ایک ٹیلہ پر ایسی جگہ پہنچےکہ وہاں سے اہل و عیال آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ، تو انہوں نے کعبۃ اللہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکروہ دعاء مانگی جس میں اپنی اولاد کے نماز قائم کرنے ، ان کو پھلوں کا رزق دینے اور لوگوں کو ان کی طرف مائل کرنے کی دعاء تھی۔
سوال: زم زم کے پاس سب سے پہلے کس قبیلہ نے آباد ہونے کی اجازت حضرت ہاجرہ سے لی اور کس شرط پر لی؟
جواب: قبیلہ بنو جرہم نے ، اس شرط پر کہ وہ پانی میں ملکیت کے حصہ دار نہیں ہوسکتے ۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جوان ہوکر پہلی شادی کس سے کی تھی؟
جواب: بنو جرہم کی ایک لڑکی سے۔
سوال: کیا قرآن حکیم میں کوئی ایسی آیت ہے جس سے معلوم ہوکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچپن میں ان کے والد چھوڑ گئے تھے؟
جواب: نہیں! بلکہ یہ واقعہ بخاری سے شریف کی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ختنہ کتنی عمر میں ہوئی تھی؟
جواب: تیرہ سال کی عمر میں۔
سوال: اسلامی تاریخ میں ذبح عظیم کے مصداق کون ہیں؟
جواب: حضرت اسماعیل علیہ السلام۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے بیٹےکو ذبح کا حکمِ الٰہی سنایا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کیا فرمایا؟
جواب: انہوں نے کہا آپ حکمِ الٰہی پر عمل کریں، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔
سوال: کعبۃ اللہ کی سب سے پہلی تعمیر کس نے کی تھی؟
جواب: حضرت آدم علیہ السلام نے۔
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ نے تعمیرِ کعبۃ اللہ کا حکم فرمایا تو اس کے محلِّ وقوع کے بارے میں کیا بتایا گیا؟
جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کعبۃ اللہ کی ان بنیادوں کا پتہ دیا گیا تھا جو حضرت آدم علیہ السلام نے رکھی تھیں اور ان کا بنایا ہوا کعبۃ اللہ اس وقت تک ناپید ہوچکا تھا۔لیکن ا س کا ذکر قرآن میں نہیں ہے بلکہ روایات میں ہے۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کی کتنی عمر تھی؟
جواب: ۱۳۶ سال۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر مبارک کہاں ہے؟
جواب: تورات کے مطابق فلسطین میں ہے۔
سوال: حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ کہاں مدفون ہیں؟
جواب: عرب مؤرخین کے مطابق بیت اللہ کے قریب حرم کے اندر مدفون ہیں۔

Latest

Powered by Blogger.

you

Widget

nwees

News & Updates : Congratulations To Those Students Who Have Passed Their Exams And Best Wish For Those Who Have Relegated Carry On Your efforts.*** Students Are Requested To Prepare Themselves For Next Exams.***Students Are Requested To Act Upon What They Have Learnt In TADREES-UL-ISLAM institute And Try To Convince Your Friends And Rerlatives To Join TADREES-UL-ISLAM institute For Learning.***Admissions Are Open For New Commers. *** By Acting Upon Sayings Of Allah Almighty In Quran Peace Can Be Established In Whole World.

videos

Follow on facebook